بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰن الرَّحِم
IN THE NAME OF ALLAH, THE MOST BENEFICIENT, THE MOST MERCIFUL

for english version of this website visit WWW.BAHAIAWARENESS.COM | feedback? write to faruqsm@gmail.com 

شيعہ نظریہ: پہلا شک: مہدی علیہ السلام کا نام

سوال ۱

 بہائی حضرات مہدی کا نام رسول اللہ کا نام نہیں جانتے بلکہ مہدی کا نام علی محمد جانتے ہیں۔اس سلسلے میں یہ مندرجہ ذیل روایتوں کا سہارا لیتے ہیں۔

)الف) عن النبی اسمہ اسم علی و انا تحت رجلہ۔

فوائد المخلصین

”رسول اللہ نے فرمایا اس کا نام علی ہو گا اور میں اس کے پیر کے نیچے ہوں گا“۔

 

جوابات:

بہائی مبلغ نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے یعنی فوائد المخلصین وہ شیعہ کتابوں میں سے نہیں ہے۔

 

معلوم نہیں ایسی کوئی کتاب ہیں بھی یا نہیں کیونکہ نہ کتاب کے موارخ کا نام بتایا ہے نہ ہی صفحہ نمبراور اشاعت کی جگہ بتائی ہے۔

 

احتمال ہے کہ یہ کتاب سید کاظم رشتی کی ہو جو خود بہائیت اور بابیت کے بانیوں میں سے تھے۔

 

اگر اس حدیث کو مان بھی لیا جائے تب بھی ترجمہ غلط ہے ’ یعنی اس کا نام علی ہوگا ”غلط “ہے ہاں ”علی “ کے ”اسم “ نہ ہو تا تو یہ ترجمہ صحیح ہوتا حالیہ صورت میں اس کا صحیح ترجمہ ہے کہ اس کانام بلند ہوگا‘ کیونکہ ’ اسم‘ ’موصوف‘ اور’ علی‘ صفت ہے۔

 

اس کے علاوہ ’ انا تحت رجلہ تو اس کا مطلب برابر کے نہیں ہوتا ’ تحت‘ یعنی ’نیچے‘ نہ کہ ’برابر‘ اور رسول اللہ ایسی غلطی نہیں کرسکتے۔

 

تو پھر جتنے علی محمد کے نام والے ہوں سبھی مہدی ہوسکتے ہیں کیوں صرف مرزا علی محمد۔

 

نتیجہ:

بہائی مبلغین جو حوالے دیتے ہیں نہ اس کا سر ہوتا ہے نہ پیر۔

عربی ترجمہ کرنے میں بھی غلطی کرتے ہیں ۔

ایسی کوئی حدیث موجود ہی نہیں۔

ایسی حدیث موجود ہونے کی صورت میں ہر ’ علی محمد ‘ نامی شخص اپنے آپ کو مہدی کہہ سکتا ہے۔

 

سوال ۲:

بہائی مبلغ مہدی کا نام ’علی محمد‘ہوگا ثابت کرنے کے لئے امیرالموٴمنین سے ایک حدیث پیش کرتے ہیں۔

 

قالامیرالموٴمنین علیہ السلام : ہو ذوالاسمین الاعلین۔  کشف الغمہ

 

جواب

علامہ مجلسینے اس حدیث کو کشف الغمہ سے صرف ذوالاسمین ہی نقل کیا ہے۔ لہٰذا یہ ”الاعلین“ جو ہے وہ زیادہ ، اضافی ہے۔

 

ذوالاسمین یعنی دوناموں والا۔ اس سے علی محمد کے نام کی شانخت نہیں ہوتی۔

 

اگر اس سے مراد علی اور محمد لے بھی لیا جائے تو یہ دو الگ الگ لوگوں کے نام ہوں گے۔

 

کوئی بھی دو نام والا اپنے آپ کو مہدی کہلا سکتا ہے۔

 

رسول اللہ نے مہدی کا نام اپنا نام بتایا ہے ۔ رسول اللہ کا نام تو علی محمد نہیں تھا۔

 

یہ حدیث مہدی کے نام کے لئے پیش ہی نہیں کی گئی ہے۔

 

نتیجہ:

 

اصل حدیث میں اعلیین کا اضافہ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ ’علی‘ اور ’محمد‘ جس کا اس میں ذکر نہیں ہے لایا جا سکے۔

 

سوال۳

بہائی حضرات مہدی علیہ السلام کا نام ’علی‘ لانے کے لئے نہج البلاغہ کے حوالے سے حدیث پیش کرتے ہیں ۔ ”انا الذی یصلی خلفہ عیسی ابن مریم“یعنی ”میں ہوں جس کے پیچھے حضرت عیسیٰ نماز ادا کریں گے۔“

 

جواب:

ایسا کوئی جملہ نہج البلاغہ میں موجود ہی نہیں۔

 

اس جملے کو نہ علامہ مجلسی نے بحارالانوار کے کس حوالے میں نقل کیا ہے اور نہ ہی سیّد رضی رحمة اللہ نے اور کس جگہ۔

 

چونکہ یہ جملہ نہج البلاغہ میں موجود نہیں ۔لہٰذا مبلغ نے اس کا پورا حوالہ نہیں دیا۔تاکہ حق کوڈھونڈنے میں تکلیف محسوس ہو۔

 

اس خطبے کو سب سے پہلے محمود علی دیدار نے خطبہ البیان میں اور بعد ازاں شیخ رجب علی برسی صوفی نے اپنی مشارق الانوار میں نقل کیا ہے۔ اس خطبے کے بہت سے حصّے افترا ہیں ۔ ایک جگہ امیرالموٴمنین سے یہ بھی نقل کیا ہے ۔’انا خالق السموات والارض‘ ” آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا میں ہوں۔“ جو سراسر افترا پر دازی پر مبنی کیا علی علیہ السلام کبھی الوہیت کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ اور وہ بھی ایسے سیاسی حالات میں جب علی اپنے خلیفہ بلا فصل نہ کہہ پائے۔

 

اگر صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی مہدی کا نام ’علی ‘ ہوگا ’علی محمد‘ پر تو یہ حدیث صادق نہیں آتی۔

 

اس جملے میں یہ تو نہیں کہا گیا ہے کہ میرے ہم نام کے پیچھے عیسیٰ نماز پڑھیں گے بلکہ ان کے بعد الذی لگا کر یہ کہہ ، و ہ خود ہو گا جس کے پیچھے عیسیٰ نماز پڑھیں گے۔

 

نتیجہ:

غلط حوالے پیش کرنا بہائیوں کا شیوہ رہا ہے ۔اس کا مقصد صرف دھونس اور دبدبہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔

 

یہ اپنا مقصد پورا کرنے کے لئے نہ رسول کو چھوڑیں اور نہ ہی آئمہ معصومین کو چھوڑتے ہیں۔بلکہ سب پر افترا پردازی کرے۔

 

غلط ترجمہ کرکے بھولے بھالے لوگوں کو بہکانا چاہتے ہیں ۔لیکن شاید ان کی نظر سے یہحدیث نہیں گذری رسول اللہ نے فرمایا۔ ’انا مدینة العلم و علیٌ بابھا۔‘ ”میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ۔“آج ہم شیعیان علی ابن طالب بھی علم کو دروازے پر ہی چھان کر بھیجتے ہیں۔ وہ غیر ہوں گے جو ہر مثال قبول کر لیتے ہیں ۔ شیعوں کے ایسے علماء موجود ہیں۔ عربی زبان سے بھی واقف ہیں اور اپنی اور غیروں کی کتابوں سے بھی۔ اس کے علاوہ کا مہدی اس دنیا سے جا چکاہے اور وہ کسی کی مدد نہیں کر سکتا۔شیعوں کا مہدی آج بھی زندہ ہے اور بقول امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب کے امام چاہے ظاہر ہو یا غائب دو کام ضرور کرتا ہے۔ ایک امت کی ہدایت کا اور دوسرے دشمنوں میں تفرقے کا وہ امام بھی شیعوں کو ہدایت کردیتا ہے ۔ بشرطیکہ ہدایت قبول کرنے کے لئے دروازہ کھلا رکھیں۔ اور تفرقہ تو خود بہائیت میں پڑ چکا ہے۔

 

سوال۴

بہائی حضرات مہدی کا نام ”علی محمد“ ثابت کرنے کے لئے اگلی حدیث مشارق الانوار سے پیش کرتے ہیں قال امیرالموٴمنین علیہ السلام ’انا الجانب والجنب محمد‘ یعنی امیرالموٴمنین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ’اس کے نام کے ایک طرف میں ہوں اور دوسری طرف محمد ‘ یعنی ’ علی محمد‘۔

 

جواب

علامہ مجلسی علیہ الرحمة والرضوان ارشاد فرماتے ہیں کہ ’ مشارق انوار اور الفین حافظ رجب علی کی برسی کی ہیں۔

ولا اعتمد علی ما یتفرد بنقلہ لا شتمال کتابیہ علی مایو ہم الخبط والخلط۔” یعنی میں ان کی تنہا نقل کردہ چیزوں پر بھروسہ نہیں کرتا اس لئے کہ ان کی دونوں کتابوں میں ایسی باتیں ہیں جو ضبط اور خلط کی موہم ہیں۔ “

 

شیخ حرعاملی نے وسائل الشیعہ میں تحریر فرمایا ہے کہ ’حافظ رجب علی کی کتاب میں حد سے تجاوز باتیں درج ہیں ۔ اور بسا اوقات ان کی طرف غلو کی نسبت دی جاتی ہے۔‘

سفینة البحارج اص ۵۱۱

 

مندرجہ بالا بیانات سے یہ معلوم ہوا کہ یہ حدیث خبر واحد ہے اور کتاب کے لکھنے والے نہ صرف قابل اعتماد نہیں بلکہ ان پر غلو کی نسبت بھی دی جاتی ہے۔

 

 اس حدیث کو اگرصحیح مان بھی لیا جائے تو اس میں امیرالموٴمنین علیہ السلام نے یہ کہاں کہا ہے کہ مہدی کا نام ’علی محمد‘ ہوگا۔

 

جانب والجنب کا ترجمہ اگریہی کیا گیا ہے کہ اس کے ایک طرف میں اور دوسری طرف محمد ہوں گے تو اصل بیچ والے کا نام تو درج نہیں ۔ مثال کے طور پر اگر اس کا نام ’ علی باقر محمد‘یا ’محمد باقر علی‘یا باقر کی جگہ کچھ اور بھی تو ہو سکتا ہے وہ بیچ والے کو کیوں چھوڑ دیا۔ اور صرف علی محمد کیسے لے لیا۔

 

جانب والجنب میں علی کے نام کا تعین کس طرف ہے یہ بھی تو نہیں کیا گیا ۔ بھائی وہ’محمد علی ‘بھی تو ہو سکتا ہے بہائیوں کے Logicکے حساب سے۔

 

نتیجہ

بہائی حضرات نے چونکہ وقت کے اما م سے دشمنی لی ہے لہٰذا ان کی عقلوں پر پتھر پڑ گیا ہے۔ اور وہ سیدھی سادی باتیں سمجھنے سے انکار کردیتے ہیں ۔ اور غلط چیزوں کے ایسے عالمانہ انداز میں پر اعتمادی کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ بھولے بھالے لوگ اسکے چکر میں آجائیں۔ اور صحیح عقیدے سے منہ موڑ بیٹھیں۔

 

قارئین کی معلومات میں اضافے کی خاطر ہم یہاں ان کچھ صحیح حدیثوں کو پیش کرتے ہیں جن کا تعلق حضرت امام مہدی علیہ السلام کے نام سے ہے۔ بہائی حضرات سے بھی گذارش ہے کہ اس کے حوالے، سند، ترجمے سب چیک کرلیں اور اپنے آپ کا عقیدہ صحیح کر لیں اور پھر سے مذہب اسلام میں داخل ہو جائیں ۔ یہ پشیمانی قبر کی پشیمانی سے کم تر ہو گی۔

 

قول عسکری علیہ السلام:

واسمہ محممد و ہو القائم من بعدی۔  بحارالانوار ج ۵۱ص۲

یعنی” انکا نام محمد ہے اور میرے بعد وہی قائم ہیں۔“

 

وولد لہ و سماہ م۔ح۔م۔د (بحار ج ۵۱ص۴) امام حسن عسکری کے ایک فرزند ہوا جس کا نام آپ نے م۔ح۔م۔د ، رکھا۔

 

ولد لالی محمد فسماہ محمد - بحار ج ۵۱ص۴

امام حسن عسکری کے ایک فرزند ہوا جس کا نام محمد رکھا۔،

 

وعلی قبرہا (ای ام الحجة) مکتوب ھذاالقبرام محمد - بحار ج ۵۱ص۴

مادر حجة علیہ السلام کی قبر پر ام محمد کا کنبہ تحریرہے۔

 

سمی بمحمد و کنی بابی جعفر - بحار ج ۵۱ص۴

یعنی محمد نام اور کنیت ابو جعفر رکھی گئی۔

 

و یکنی بابی القاسم و ھو ذوالاسمین خلف و محمد و یظھر فی آخر الزمان۔

بحار ج ۵۱ص۲۴

”ابو القاسم کنیت ہے ۔ اور ان کے دو نام ہیں خلف ۔اور محمد۔آخر زمانے میں ظہور فرمائیں گے۔“

 

الخلف الصلح من ولدی وھو المہدی اسمہ م۔ ح۔م۔د، و کنیة ابالقاسم۔

بحار ج ۵۱ص۲۴

” خلف صالح میری اولاد سے مہدی ہے ۔ اس کا نام م۔ح۔م۔د ہے اور کنیت ابوالقاسم ہے۔“

 

لہ اسمان، اسم یخفی و اسم یعلن فاما الذی یخفی فا حمدو اما الذی یعلن محمد۔

بحار ج ۵۱ص۲۴

”ان کے دو نام ہوں گے ۔ ایک مخفی اور ایک ظاہر مخفی احمد ہے اور ظاہر محمد۔“

 

ذالک الفقید الشرید م۔ح۔م۔د بن الحسن بن علی۔

بحار ج ۵۱ص۱۱۰ کتاب المقتضب

وہ گم گشتہ م۔ح۔م۔د ، ابن الحسن ہیں۔

 

ستحملین ذکر او اسمہ م۔ح۔م۔د وھوالقائم من بعدی۔ بحار ج ۵۱ص۲

” بہت جلد تم ایک فرزند سے حاملہ ہوگی اس کا نام م۔ ح۔م۔د ہوگا میرے بعد وہی قائم ہوگا۔“

 

الخلف المامولی المنتظر م۔ح۔م۔د ابن الحسن ۔ بحار ج ۵۱ص۱۴۳

خلف منتظر م۔ح۔م۔د بن حسن ہے۔

 

قال جابر فرأیت فیھا محمدا محمد ا فی ثلثة مواضع۔ بحار ج ۳۶ص۲۰۹

” جابر کہتے ہیں کہ میں نے لوح فاطمة میں تین جگہ محمد ،محمد لکھا ہوا دیکھا۔ محمد باقر ، محمد تقی، محمد مہدی۔“

 

ثلثة منہ محمد و اربعة منھم علی۔         بحار ج ۳۶ص۲۰۲

”یعنی آئمہ میں تین محمد اور چار علی ہیں۔“

 

والخلف محمد یخرج فی آخرالزمان۔  بحار ج ۳۶ص۲۰۲

آخری جانشین محمد ہیں جو آخرالزمان میں ظاہر ہوں گے۔

 

ومحمد ولد الحسن القائم المہدی۔ بحار ج ۳۶ص۲۱۳

محمد بن الحسن ہیں۔ جو قائم و مہدی ہیں ۔

 

فاذا حضرتہ الوفاة ملیسلمھا الی ابنہ محمد۔  بحار ج ۳۶ص۲۶۰

”جب عسکری علیہ السلام کی رحلت کا وقت آیا تو وصیت اپنے فرزند محمد کے سپرد کردیں۔“

 

و محمد بن الحسن الحجة تیدالا بینھم۔ بحار ج ۳۶ص۳۷۰

”اور محمد بن حسن حجة ان کے درمیان جگمگاتے ہوں گے ۔“

 

و انّ الائمة من بعدی اثنا عشر رجلًا من اھل بیتی علی اولھم و اوسطھم محمد و آخر ھم محمد مہدی ھذہ۔ بحار ج ۳۶ص۳۱۲

”میرے بعد میری اہلیت سے بارہ امام ہو ں گے پہلے علی وسطی محمد اور آخری بھی محمد جو اس امت کے مہدی ہوں گے۔“

 

ان احادیث کے علاوہ اب ہم ان بے شمار حدیثوں میں سے کچھ یہاں نقل کرتے ہیں۔ جن میں صریحایہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کا نام حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام ہوگا۔

 

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم: ہُو رجلٌ منی اسمہ کا سمی ۔

بحارالانوار ج ۵۱ص۲۹

”یعنی وہ ہم میں سے ہو گا اور اس کا نام میرے نام کی طرح ہوگا۔“

 

ہُو سمی رسول اللّٰہ و کنیة۔ بحار ج ۵۱ص۳۲

”وہ ہم نام و ہم کنیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ہے۔“

 

اسمہُ اسم نبی واسم انبیہ اسم وصی۔  بحار ج ۵۱ص۳۸

”عنقریب خدا آپ کے صلب سے تمہارے نبی کا ہم نام ظاہر کرے گا۔“

 

سیخرج اللّٰہ من صلبہ رجلہ باسم بینکم۔ بحار ج ۵۱ص۳۸

”عنقریب خدا ان کے صلب سے تمہارے نبی کا ہم نام ظاہر کرے گا۔“

 

اسمہ کا سمی و اسم ابیہ کاسم ابنی وھو من ولدا بنتی۔

بحار ج ۵۱ص۴۱

”اس کا نام میرے نام اور اس کے باپ کا نام میرے فرزند کے نام کی طرح ہوگا وہ میری دختر کی ذریت سے ہو گا ۔ “

 

المہدی من ولدی اسمہ و کنیة کنیتی۔ بحار ج ۵۱ص۷۳

” مہدی میری اولاد سے ہوگا۔ اس کا نام میرا نام اور اس کی کنیت میری کنیت ہوگی۔“

 

القائم من ولدی اسمہ اسمی۔         بحار ج ۵۱ص۶۱

قائم میری اولاد میں سے ہوگا اس کا نام میرا نام ہوگا۔

 

یواطی اسمہ اسمی - بحار ج ۵۱ص۳۰

” اس کا نام میرے نام کے موافق ہے۔“

 

اسمہ اسمی و خلقہ خلقی۔  بحارج ۵۱ص۳۰

”اسکا نام میرا نام اور اسکا خلق میرا خلق ہے۔“

 

بابی و اصی و شبیھی  -بحار ج ۵۱ ص ۳۰

”میرے ہم نام و ہم شکل پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔“

 

سیخرج من صلبہ رجل باسم بینکم۔ بحار ج ۵۱ص ۳۰

”ان کے صلب سے تمہارے نبی کا ہم نام ظاہر ہوگا۔“

 

سمی نبی اللّٰہ نفسی فداہ۔  بحار ج ۵۱ص۶۰

”نبی خدا کے ہم نام میرا نفس اس پر فدا ہو۔“

 

المسمّٰی باسمی والمکنی بکنیتی السابع من بعدی۔  بحار ج ۵۱ص۶۰

میرا ہم نام و ہم کنیت میرا ساتواں فرزند  - امام باقر علیہ السلام

 

 بابی وا سمی جدی۔ بحار ج ۵۱ص۱۵۲

میرے جد کے نام پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔

 

 ہوسمی رسول اللّٰہ و کنیتہ۔ بحار ج ۵۱ص۱۵۷

”وہ ہم نام و ہم کنیت رسول اللہ ہے۔“

 

ثم سمی و کنیتی حجة اللّٰہ فی ارضہ۔ بحار ج ۳۶ص۲۴۹

”پھرمیرا ہم نام و ہم کنیت زمین میں حجت خدا ہوگا۔“

 

والقائم من ولدالحسن سمی و اشبہ الناس بی۔ بحار ج۳۶ص۳۵۱

”قائم حسن کا فرزند۔ میرا ہم نام اور مجھ سے زیادہ مشابہ ہوگا۔“

 

قارئین ملاحظہ فرمائیں اتنی زیادہ کثیر روایتوں میں سے چند کا انتخاب کرنے کے بعد بھی جب احادیث کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی تو پھر ایسے میں ان چند غلط گڑھی ہوئی روایتوں کا کیا ذکر و محل جن سے پھر بھی مرزا علی محمد کا نام تو مہدی علیہ السلام کا نام ثابت نہیں کر پائے۔ تو باقی خصوصیات کیا ثابت کر پائیں گے۔ لیکن مندرجہ بالا بحث سے یہ بات توبحرحال ثابت ہوگئی کہ بہائیوں کا طریقہ کار کیا ہے۔ آئندہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی دی ہوئی توفیقات سے ہم یہ ثابت کریں گے کہ خود مرزا علی محمد باب کا یہ کہنا ہے اور کسی اور کے سامنے نہیں بلکہ بارگاہِ خدا وندقدوس میں دعا کرتے ہوئے آپ نے خود اس بات کی گواہی صحیفہٴ ادلیہ کے صفحہ پر دی ہے کہ محمد بن الحسن ہی بارہواں جا نشین حضرت رسول خدا ہے اور وہی مہدی ہے ۔ اب اس کے بعد تو بہائیوں کی ہٹ دھرمی کے علاوہ اور کچھ باقی نہیں رہتا کہ خود مان لیں کہ مرزا علی محمد باب خود مہدی نہیں تھے۔ یہی نہیں بلکہ صریحتہ احادیث کاایک انبار ہے حضرت مہدی علیہ السلام کے حسب و نسب کے بارے میں کیا میں بہائی حضرات سے گذارش کروں کہ ایک نظر ان احادیث کی تعداد پر بھی کریں جو شیعوں کے یہاں حسب و نسب امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں موجود ہیں۔ ملاحظہ ہو۔

۱۔       وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہم نام و ہم کنیت ہوگا۔

۲۔       وہ حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کی اولاد میں سے ہوگا۔

۳۔      وہ امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فرزندوں میں سے ہوگا۔

۴۔      وہ امام حسین علیہ السلام کا نواں فرزند ہوگا۔

 

ان تمام روایتوں پر نظر کرنے کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے باپ چھوٹے بچے کی ضد اور اسرار پر مجبور ہو جاتا ہے تو اس کے لئے نقلی سو ڈالر کی نوٹ لا کردے دیتا ہے جس کو بچہ کچھ دیر تک کھیلتا ہے اور اس کے بعد پھاڑ پھوڑ کے پھینک دیتا ہے۔ وہی کچھ بہائیوں کا بھی حال ہے کہ انھوں نے کچھ دنوں کے لئے مرزاعلی محمد باب کو نقلی مہدی بنا کر کھڑا کیا جس کا نام تک تو اصل مہدی سے مطابقت نہیں رکھتا تھا اور پھر اس کی لکھی ہوئی کتابیں تک معدوم کردیں۔ ورنہ کیا وجہ تھی کہ باب کی بیان عربی نہ ملتی۔ اب آئیے دیکھیں وہ اصل مہدی علیہ السلام سے ہم کو گمرا ہ کرنے کے لئے اور کونسے حربے اختیار کرتے ہیں۔

·        شيعہ نظریہ: مقدمہ

·        : پہلا شک: مہدی علیہ السلام کا نام

·        دوسرا شک حضرت مہدی کے بارے میں نص موجود نہیں

·        والدہ کے نام میں شک ڈال کر ولادت سے ہی انکار

·        شبہاتِ ولادت

·        : دنیا کا امام سے خالی رہنا

·        اسلام بزور شمشیر پھیلائیں گے

·        حضرت امام مہدی نئی شریعت اور نئی کتاب لے کر آئیں گے



blog comments powered by Disqus
HOME | BACK
©TheBahaiTimes.com