بِسْمِ
اللہ
الرَّحْمٰن
الرَّحِم
|
![]() |
|
for english version of this website visit WWW.BAHAIAWARENESS.COM | feedback? write to faruqsm@gmail.com |
شيعہ
نظریہ: دنیا کا
امام سے خالی
رہنا حضرت
امام حسن عسکری
علیہ السلام کی
وفات کے
بعدروئے زمین
پر کوئی امام
باقی نہیں رہا۔
اور زمانہ
’فترہ‘ شروع ہو
گیا ۔ جو ایک
ہزار سال تک
جاری رہا۔ اس
ایک ہزار سال
کے زمانے کو
جب ہم ختم
کرتے ہیں اور ۱۲۶۰ئھ
میں آتے ہیں ۔
تو حضرت امام
محمد باقر اور
حضرت امام
صادق علیہ
السلام کے
الفاظ واقعہ
بن کر ہمارے
سامنے آتے تھے۔
یعنی ۱۲۶۰ھء
کی تاریخ میں
ہم پڑھتے ہیں ۔
کہ ۵/ جمادی
الاوّل ۱۲۶۰ئھ
مطابق ۲۳/مئی
۱۸۴۴ءء
کو ایران کی
سر زمین و
آسمان ایک ۲۵: سالہ
نوجوان کے ان
الفاظ سے گونج
اٹھی کہ ۔ انا
القائم الذی
کنتم لہ
تنظرون۔ ’میں
ہی ہوں وہ
قائم جس کا تم
انتظار کررہے
ہو۔‘ یہ
تاریخی ہستی
تاریخ میں باب
کے لقب سے
مشہور ہے۔ جوابات: زمانہ
فترہ دو ظاہر
نبیوں کے درمیان
ہوا کرتا تھا۔
چنانچہ صاحب
قاموس
رقمطراز ہیں
’الفترہ بین
کل نبین‘ ہردو(
ظاہری )نبی کے
درمیانی
فاصلہ کو فترہ
کہتے ہیں ۔
ورنہ بہ ایک
مسلمہ حقیقت
ہے کہ خدا کبھی
زمین کو حجت
خدا سے خالی
نہیں رکھتا۔
اس سلسلے میں
آئمہ معصومین
سے حدیثیں ذیل
میں پیش کی
جارہی ہیں جن
کے آپ بھی
معتقد ہیں ۔جیسا
کہ آپ کے بیانات
سے ظاہر ہے۔ لو لا
الحجة
السافت راوی
نے حضرت امام
جعفر صادق علیہ
السلام سے
سوال کیا : یکون
فترة لا یفرف
للمسلمون
امامھم فیھا۔ ”کیا
ایسا زمانہ بھی
ہوگا جس میں
لوگ اپنے امام
کو نہ پہچانیں
گے۔“ فرمایا
یہ کہا جاتا
ہے ۔ پوچھا
ہماری تکلیف کیا
ہوگی۔ فرمایا: ”امر
اوّل پر قائم
رہو تا اینکہ
دوسرا متحقق
ہوجائے۔“ بحار
ج ۵۱ ص ۱۴۰ قارئین
ملاحظہ فرمائیں۔ راوی
نے پوچھتے وقت
بھی یہ پوچھا
کہ لوگ اپنے
امام کو نہ
پہچانیں۔ نہ
کہ یہ کہا کہ
زمین پر کوئی
امام نہ ہو۔’یعرف‘
یہ بتا رہا ہے
کہ ہوگا لیکن
پہچانا نہیں
جائے گا۔ امام
نے جواب میں
بھی یہی فرمایا
۔یہ کہا جاتا
کہ ایسا امر
واقع ہوگا۔ پھر
راوی کا یہ
پوچھنا کہ اس
وقت ہماری ذمہ
داری کیا ہوگی۔بتا
رہا ہے کہ جب
امام ظاہر نہ
ہو تو ہماری
ذمہ داریاں ہیں۔ امام
کا جواب امر
اوّل پر قائم
رہنا۔ بتا رہا
ہے کہ اس درمیان
کسی اور پر ایمان
نہ لے آنا ۔
امام مرزا علی
محمد باب جیسے
لوگوں کی طرف
اشارہ کررہے ہیں۔
نام اس لئے نہیں
لیا کہ سنت
رسول پر عمل کیا
۔ رسول کے
زمانے میں بھی
منافقین
موجود تھے۔لیکن
رسول نے نام
لے کر نہیں
بتایا۔ ایسے ہی
امام صادق علیہ
السلام نے ان
جیسے منافقوں
کا نام نہیں لیا
ہاں یہ کہہ کر
اشارہ کر دیا
کہ ہوشیار
رہنا۔ امام
کا یہ کہنا تا
اینکہ دوسرا
متحقق ہو جائے
بتا رہا ہے کہ
زمانہ غیبت
امام زمانہ میں
ہماری پہلی
ذمہ داری یہ
ہے کہ وقت کے
امام کو پہچانیں۔
اور اس کی حقیقت
سے واقف ہوجائیں
۔ تاکہ ایسے
دھوکے بازوں
سے بچے رہیں۔ بہائی
کتابوں میں
ملتا ہے کہ
چونکہ لوگ جنگ
سے عاجز آگئے
تھے اور مرزا
علی محمد باب
نے لوگوں سے یہ
کہہ کر شروع کیا
کہ میں امام
زمانہ علیہ
السلام تک
پہنچانے کا ذریعہ
ہوں جسے’ صاحب
فیض‘ کیا لوگ
مرزا علی محمد
کی طرف کھینچ
آئے لیکن جب
اس نے جیل سے
مہدی ہونے کا
دعویٰ کیاتو
لوگوں نے اپنے
اپنے ماتھے پیٹ
لئے اور کہا
ہائے ہمارا بیٹا
فلاں جنگ میں
نا حق مارا گیا
یہ مہدی کیسے
ہوسکتا ہے۔ یہ
زمانہ فترہ
توپورے ایک
ہزار سال سے
بھی زیادہ کا
ہوگیا کیوں کہ
بقولہ روایاتِ
امام حسن عسکری
علیہ السلام کی
وفات ۸/ربیع
الاوّل کو
ہوگئی تھی۔
اور باب نے ۵/جمادی
الاوّل کو
اپنا اعلان کیا۔ یہ
زمانہ فترہ کیوں
امام حسن عسکری
کی وفات اور
باب کی بعثت
تک لیا گیا کیوں
نہیں باب کی پیدائش
تک کیوں کہ
امام تو جو
ہوتا ہے وہ
ولادت سے ہی
امام ہوتا ہے ۔
سوائے اس کے
کہ اس سے پہلے
کا امام زندہ
ہو بقول آپ کے
ان سے پہلے کا
امام تو زندہ
نہیں تھا ۔ لہٰذا
جیسے ہی باب پیدا
ہوا زمانہ
فترہ ختم
ہوجانا چاہئے
تھا۔ جب وہ
مہدی تھا تو
اسے آج تک ’باب
‘دروازہ کیوں
کہتے ہیں ۔ میڈیکل
فرم میں جب
کوئی میڈیکل ریپ
مینیجر ہو
جاتا ہے تو
پھراسے میڈیکل
ریپ نہیں کہتے
بلکہ مینیجر
صاحب کہتے ہیں۔
ایسے ہی جب وہ
مہدی ہو گئے
تھے تو پھر
لقب باب ہی کیوں
ابھی تک رہنے
دیا۔ رسول
اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ و
سلم نے جس مہدی
کے آنے کی خبر
دی ہے وہ خانہ
کعبہ سے بین
الرکن والمقام
سے آواز بلند
کرے گا ۔ ’ انا
بقیة اللہ
خیر الکم ‘ نہ
کہ ایران سے
اور وہ بھی
انا القائم
الذی کنتم لہ
تنظرون یہ تو
منصور کی
آوازاناالحق
سے ملتی جلتی
ہے۔ بہائی
حضرات سے
مودبانہ
گذارش ہے کہ
وہ یہ طے کریں
کہ مرزاعلی
محمد باب کا
اصل مقام کیا
ہے ۔ آیا وہ
باب تھے جیسا
کہ انھوں نے
خود فرمایا۔یا
وہ مہدی تھے جیسا
کہ انھوں نے
خود فرمایا۔ یا
وہ مبشر بہاء
اللہ تھے جیسا
کہ بہائی
حضرات کہتے ہیں’
یا وہ ان سب کا Averageتھے۔ ہندوستان
کی تاریخ میں
ایک لطیفہ
ملتا ہے کہ
چاچا نہرو جب
ہندوستان کے
وزیر اعظم تھے
تو آپ نے ایک
بار کسی پاگل
خانے کا دورہ
کیا ۔ خیر
دورہ بڑا کامیاب
تھا۔ جب وہ
باہر نکلنے
لگے تو ایک
پاگل نے ان سے
دریافت کیا
صاحب آپ کا کیا
نام ہے؟ انھوں
نے جواب دیا
’چاچا
نہرو‘پاگل زور
زور سے ہسنے
لگا اور کہا تم
جا نہیں سکتے
تمہارا یہاں
رہنا بہت ضروری
ہے کیوں کہ جب
میں یہاں داخل
ہوا تھا تو میں
بھی اپنا نام
چاچا نہرو
بتاتا تھا ۔
کہیں مرزا علی
محمد صاحب کے
ساتھ بھی تو ایسا
ہی کچھ معاملہ
نہیں تھا۔ بہائی
حضرات تو اصل
امام مہدی کے
باپ کا نام
ماں کا نام سب
پوچھتے ہیں۔آخر
یہ کیوں نہیں
پوچھتے کہ
مرزا رضا بزاز
کا سید علی
محمد کیسے ہو
گیا۔ ایران میں
آج بھی مرزا
اسے کہتے ہیں
جس کی ماں سید
ہو لیکن باپ غیر
سید ہو ۔یہ
باپ بدلنے کا
مسئلہ سمجھ میں
نہیں آیا۔ ویسے
حرکتیں حقیقت
کا انکشاف کرتی
ہیں۔ نتیجہ: بہائی
حضرات خود یہ
چاہتے ہیں کہ
ان کا بھید نہ
کھلے لہٰذا وہ
لوگ کسی بھی
طرح شیعہ روایتوں
کو موڑ توڑ کر
حضرت مہدی علیہ
السلام کی جگہ
مرزا علی محمد
باب کو لانا
چاہتے ہیں
حالانکہ وہ
خود بارگاہِ
خداوند عالم میں
دعا کرتے ہیں
اور شہادت دیتے
ہیں جو پچھلے
اوراق میں گذر
گئی اب جب کوئی
خدا وند عالم
کے سامنے
شہادت دے کر
خود آپ اپنی
شہادت سے در
گذر ہوجائے تو
پھر ایسے شخص
کا انسانوں کے
سامنے کیا
بھروسہ اور
پھر خدا وند
عالم نے جو
جنت کا وعدہ کیا
ہے وہ اس سے بھی
در گذر ہو
جائے گا ایسے
لوگوں کے لئے ۔اور
دوسرے وعدہ
کوپورا کرے گا
۔ یہ سب دیکھ
کر ایک درس تو
ضرور ملتا ہے
اور وہ یہ ہے
کہ ہدایت کی
ذمہ داری خدا
وند عالم ہی کی
ہے۔ اور یہ
ہدایت کا نور
لمحہ بہ لمحہ
ہم تک پہنچتا
رہتا ہے۔ لہٰذا
ہر وقت یہ دو
عائیں پڑھنا
نہیں بھولنا
چاہےئے۔ اَلْحَمْدُ
للّٰہِ
الَّذِیْ ھَدٰنَالِھٰذَا
وَمَا کُنَّا
لِنَھْتَدِیَ
لَوْ لَا اَنْ
ھَدٰنَااللّٰہُ۔ سورہ
اعراف ، آیت ۴۳ شکر
ہے اس خدا کا
جس نے ہمیں اس
(منزل مقصود)
تک پہنچا دیا۔
اور اگر خدا
ہمیں یہاں نہ
پہنچاتا تو ہم
کسی طرح یہاں
تک نہ پہنچ
سکتے۔
·
شيعہ
نظریہ:
مقدمہ ·
:
پہلا شک:
مہدی علیہ
السلام کا نام ·
دوسرا
شک حضرت مہدی کے
بارے میں نص
موجود نہیں ·
والدہ
کے نام میں شک
ڈال کر ولادت
سے ہی انکار ·
اسلام
بزور شمشیر پھیلائیں
گے ·
حضرت
امام مہدی نئی
شریعت اور نئی
کتاب لے کر آئیں
گے
blog comments powered by Disqus |
HOME | BACK ©TheBahaiTimes.com |