بِسْمِ
اللہ
الرَّحْمٰن
الرَّحِم
|
![]() |
|
for english version of this website visit WWW.BAHAIAWARENESS.COM | feedback? write to faruqsm@gmail.com |
سوال: بعثت
انبیاء قیامت ہیں بہائی
حضرات سورہ
بقرہ کی آیت ۲۱۳ کو
بیان کرتے ہیں
اورمندرجہ
ذیل غلط نتائج
نقل کرتے ہیں
۔ ”کَانَ
النَّاسُ
اُمَّة
وَّاحِدَة فَبَعَثَاللّٰہُ
النَّبِینَ
مُبَشِّرِیْنَ
وَمُنْذِرِیْنَ
وَاَنْزَلَ
مَعَھُمُ الْکِتٰبَ
بِالْحَقِّ
لِیَحْکُمَ
بَیْنَ
النَّاسِ
فِیْمَا
اخْتَلَفُوْا
فِیْہِ وَمَا
اخْتَلَفَ
فِیْہِ
اِلَّا الَّذِیْنَ
اُوْتُوْہُ
مِنْ بَعْدِ
مَاجَآءَ تْھُمُ
الْبَیِّنٰتِ
بَغْیًام
بَیْنَھُمْ
فَھَدَے
اللّٰہُ
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْالِمَا
اخْتَلَفُوْافِیْہِ
مِنَالْحَقِّ
بِاِذْنِہوَاللّٰہُ
یَھْدِیْ
مَنْ
یَّشَآءُ
اِلٰے
صِرَاطٍمُّسْتَقِیْمٍ“ بہائی
ترجمہ:
ابتداء میں سب
لوگ ایک ہی
عقیدے پر تھے
پھر خدا نے
بشارت دینے
والے اور
ڈرانے والے
نبی بھیجے اور
انکے ساتھ بر
حق کتاب بھی
نازل کی تاکہ
وہ لوگوں کے
اختلاف کا
فیصلہ کریں یہ
اختلاف ان
لوگوں کی طرف
سے ہوتا ہے
جنھوں نے روشن
دلائل آنے کے
بعد ضد کی وجہ
سے لیا
تھا پھر خدا
نے ایمان لانے
والوں کو اپنے
حکم سے ان کے
اختلافات کے
بارے میں راہ
حق دکھا دی
اور ۔ خدا جس
کو چاہتا ہے
راہ حق دکھاتا
ہے۔“ بہائی
تاویل و
تفسیر:
یہ سنت الٰہی
اور قدرت کا
عام اٹل قانون
ہے علماء قوم
جب روشن دلائل
آنے کے بعد
آپس کی ضد کی وجہ
سے اپنے اندر
اختلافات
پیدا کرلیتے
ہیں تو وہ ان
اختلافات کو
دور کرنے اور
آپس کے دینی جھگڑوں
کا فیصلہ کرنے
پر قادر نہیں
ہوتے بلکہ ان
کو تیسرے کی
ضرورت ہوتی ہے
خدا وند عالم
خود کو ثالث
بناتا ہے اور
انکے اختلافات
کا فیصلہ کرنے
کے لئے اپنی
طرف سے
پیغمبروں کو
مبعوث فرماتا
ہے اور ان کے
ساتھ اپنا
فیصلہ بھیجتا
ہے جس کو بر حق
کتاب یا میزان
کہتے ہیں ۔ جو
لوگ اس خدائی
فیصلے کو قبول
کر لیتے ہیں پس
وہ راہ حق
پالیتے ہیں ۔
بطاہر یہ
اختلاف کا معاملہ
معمولی معلوم
ہوتا ہے لیکن ایسانہیں
ہے ۔ اس سے
وحدتِ ملی
پارہ پارہ ہو
جاتی ہے حکومت
الٰہیہ
منترلزل
ہوجاتی ہے
جیسا کہ آجکل
آپ دیکھ رہے
ہیں ۔بہ
قادامت اور
قومی نشت جو
علماء قوم کی
وجہ سے ہوتا
ہے ایسا خطرناک
معاملہ ہے
جسکی اصلاح
خدا کے علاوہ
دوسرا شخص
نہیں کر سکتا۔
انھیں
اختلافات کا
دوسرا نام شرک
ہے ۔ اس شرک سے
خود خدا ہی
نجات دے سکتا
ہے ۔ اس لئے اس
معاملے میں
خود ثالث بنتا
ہے اور خود
فیصلہ فرماتا
ہے اور خدا کا
یہ فیصلہ اسکا
پیغمبر
سوناتا ہے جس
دن پیغمبر یہ
فیصلہ لیکر
آتا ہے اور
قوم کو مخاطب
کرتا ہے ۔ یہی
وہ دن ہے جو
یوم القیامت،
یوم الفصل اور
یوم الدین
کہلاتا ہے
یعنی قیام اور
کھڑے ہونے کا
دن نہ کہ مرنے
اور فنا ہونے
کا دن فیصلے
کا دن دین اور
شریعت نازل
ہونے کا دن ۔
یہی وہ دن ہے
جبکہ خدائی
صور پھونکا
جاتا ہے یعنی پیغمبر
اپنا اعلان
کرتا ہے اسکے
حکم سے مردہ قوم
کو زندہ کرتا
ہے۔ اور مردہ
دین میں جان
ڈالتا ہے ۔ جو
لوگ اس کا
فیصلہ سن کر
ایمان لے آتے
ہیں روحانی
طور پر زندہ
ہوجاتے ہیں ۔
او ر انھیں
لوگوں کی وجہ
سے ایک نئی
اور زندہ قوم
کی بنیاد پڑتی
ہے ۔ اور جو
لوگ نافرمانی
کرتے ہیں وہ
تباہی ذلت و
رسوائی اور
پستی کے جہنم
میں جا گرتے
ہیں ۔ پس آدم
کا ظہور قیامت
تھا۔ نوح و
ابراہیم کا
یوم ظہور قیامت
تھا۔ موسیٰ کی
آمد قیامت
تھی۔ ظہورِ
مسیح قیامت
تھا۔ حضرتِ
خاتم
الانبیاء کی
بعثت کا دن
یوم قیامت
تھا۔ پس
پیغمبر کا
ظہور قیامت کا
دن کہلاتا ہے
۔ کیوں کہ وہ
مردہ قوموں کو
زندہ کرنے کے
لئے اٹھ کھڑا
ہوتا ہے
پیغمبر کا
ظہور یوم
الفصل کہلاتا
ہے ۔کیوں کہ
وہ اختلافات
کا فیصلہ کرتا
ہے ۔ اس کام کے
لئے پیغمبروں
کا مبعوث ہونا
جب خدائی قدیم
سنت ہے تو یہ کیوں
کر ممکن ہے کہ
امت مسلمہ اس
قانون کی گرفت
سے بچ جاتی۔ جوابات: ایک
آیت کو پیش
کرنے کے بعد
دھکا دہی کا
سلسلہ ہی نہیں
بارش برسادی
گئی ہے ملاحظہ
ہو )الف)
بعثت انبیاء
کی غرض صرف
تبشیر و انذار
ہے۔ )ب)
لوگوں کے
اختلاف کودور
کرنے کے لئے
انبیاء کے
ساتھ کتاب
نازل ہوا کرتی
تھی۔ )ج)
اختلاف وہی
لوگ کرتے تھے
جن کے پاس
کتاب آیا کرتی
تھی۔ )د)
کھلی ہوئی
کتاب کو پانے
کے بعدوہ لوگ
بغاوت و
اختلاف کیا
کرتے تھے۔ )ذ)
انکی پیدا
کردہ اختلاف
میں سے حق
اللہ اہل ایمان
کی ہدایت کرتا
رہا )ر)
اختلاف کرنے
والے علماء
قوم )ز)
ان اختلافات
کا نام شرک )م)
انبیاء کی
بعثت ہی یوم
القیامت اور
یوم الفصل )ن)
پیغمبروں کے
فیصلہ سنانے
کا اورصور
پھوکنے کا دن۔ قابل
غور ہیں یہ
باتیں کہ
روانی میں کیا
کیا نہ کہہ
گئے۔ آیت میں
علماء قوم کا
کہیں نام و
نشان نہیں ۔
بلکہ لفظ ناس
استعمال ہوا
ہے جسکا کسی لغت
میں علماء قوم
مطلب نہیں
لکھا گیا ہے۔ اگر
علماء قوم کے
اختلاف نے دین
کو پارہ پارہ کر
دیا اور نئے
نبی کو فیصلہ
کرنے کے لئے
آناپڑا جو
قیامت کہلایا
تو پھر بابی
علماء نے سب
سے زیادہ
اختلافات بہت
ہی کم مدت میں
پیدا کردیے
تبھی تو نیا
دین بہائیت
اور بابیت کے
۔۔۔۔۔ سال بعد
ہی وجود میںآ
گیا۔ دین
بابیت میں
اختلاف پیدا
کرنے والے
مرزا حسین علی
نوری ملقب بہ
بہاء اللہ اور
مرزا یحییٰ نوری
ملقب بہ صبح
ازل تھے۔
فیصلہ کرنے
والا تیسرا ہی
ہونا چاہےئے
تھا تب تو وہ
نبی ہوتا یہ تو
خود بن بیٹھے۔ جیسا
کہ بیان
کیاگیا ہے کہ
علماء قوم میں
انتشار ہوا
اور انکے
فیصلے کیلئے
نبی بھیجے گئے
جس دن وہ
فیصلہ سنانے
کے لئے کھڑے
ہوئے اسے یوم
قیامت کہتے
ہیں تو جب
جناب آدم علیہ
السلام آئے
تھے تب تو
کوئی تھا ہی
نہیں ۔ اگر
انکے آنے کے
دن کو بھی
قیامت کہتے
ہیں تو یہ تو
بہائیوں کی کی
گئی وضاحت کے
خلاف ہے۔ اگرفیصلہ
سنانے کے لئے
کھڑے ہونے کو
قیامت اور یوم
الفصل کہتے
ہیں تو پھر تو
قیامت ہر روز
ہوتی ہے سوائے
اس دن کہ جب
دنیاوی عدالت
بند ہوتی ہے
اور ہر روز
صور پھونکا
جاتا ہے ۔ اب
پھر بہت جلد
کسی نبی کی
ضرورت ہے
کیونکہ ملت
بہائیہ پارہ
پارہ ہورہی ہے
۔ کم
ازکم۔۔۔۔۔۔فرقہ
خود بہائیوں
میں ہوچکے ہیں
جو ایک دین ، ایک
مذہب، ایک
زبان، ․․․․․․․․․․
کے گیت گاتے
ہیں ۔ کیا
ممبران کو بھی
نبی کا خطاب
دیا جا سکتا
ہے کیونکہ
انکا کام بھی
ساری دنیا میں
اختلافاتکو
دور کرنا ہے
یہ الگ بات ہے
کہ وہ اپنے
کام میں
کامیاب نہیں ۔
بقول
بہائیوں کے
انسانیت کو
یکجا رنے اور
صحیح فیصلے
سنانے والے کو
نبی اور اس دن
کو قیامت کہتے
ہیں تو پھر
پڑھیے کتاب
نقطة
الکاف کے صفحہ
نمبر پر کے
باب کو حق ہے
کہ وہ تمہاری
بیویوں کو ایک
دوسرے کو دیدے
کے بارے میں
کیا خیال ہے۔ اگر
قیام سے قیامت
کا مطلب نکالا
جائے تو پھر
تو ہر ملک کا
نیا لیڈر نبی
ہوگا اور اس
ملک کے لئے
ہرنئے لیڈر کے
انتخاب کا دن
یوم اقیامة
کہلائے گا۔ اگر
علماء کے آپس
کے اختلاف کا
نام ہی شرک ہے
تو پھر بہاء
اللہ اور انکے
بھائی نے پہلے
شرک کیااورچونکے
آج ملت بہاء
میں اتنے فرقے
ہوگئے ہیں سب
کے سب مشرک
ہیں ۔ آئیے
دیکھیں کہ
قیامت کا
مفہوم قرآن
کریم میں کھلے
ہوئے الفاظ
میں کیا ملتا
ہے۔ وَادْعُ
اِلیٰ رَبِکَ
اِنَّکَ
عَلیٰ ھُدْیً
مُسْتَقِیْمُ
وَاِنْ
جَادَلُوْکَ
فَقُلِ
اللّٰہُ
اعْلَمُ
بِمَا
تَعْمَلُوْنَ
اَللّٰہُ
یَحْکُمْ
بَیْنَکُمْ
یَوْمَ الْقِیَامَة فِیْمَا
کُنْتُمْ
فِیْہِ
تَخْتَلِفُوْنَ ترجمہ:
تم لوگوں کو
اپنے پرور
دگار کی طرف
بلاتے رہو۔ بے
شک تم صحیح
ہدایت پر ہو
اگر لوگ تم سے
جھگڑا کریں تو
تم کہہ دو کہ
جو کچھ تم کر
رہے ہو اس سے
خدا خوب واقف
ہے جن باتوں
میں تم جھگڑا کرتے
تھے قیامت کے
دن خدا تم
لوگوں میں
فیصلہ کرے گا۔“ اب
بتاےئے قیامت
سے مراد کسی
پیغمبر کا
یومِ ظہور ہے
یا ان جھگڑے
والوں سے
نپٹنے کا دن
جن لوگوں نے
مثل ابو جہل و
ابو لہب ہمارے
نبی سے جھگڑا
کیا تو نبی تو
فیصلہ سنانے
والا ہوتا ہے
اور رسول اللہ
کا کھڑا ہونا
ان کے لئے
بقول بہائی
حضرات کے یومِ
قیامت تھا۔
جھگڑا علماء
میں نہیں نبی
اور غیر نبی
میں تھا ۔
نیانبی بقول
بہائیوں کے
بہاء اللہ ہے
رسول اللہ کے
بعد یا پھر
مرزا علی محمد
باب تو انکے
زمانے تک تو
نہ رسول اللہ
ہی رہے اور نہ
ہی بو جھل و
ابولہب تو پھر
انکے لئے
قیامت کا
مفہوم ہی نہیں
ان کے لیے
قیامت آئے گی
ہی نہیں ان کے
لئے قیامت آئیگی
ہی نہیں یہ
کیسی بدعقلی
کی باتیں ہیں
بہائی طرز پر
سوچنے سے اس
کا جواب نہیں
ملے گا بلکہ پھر
قرآن کا
مطالعہ تو
معلوم ہوگا
نبی جھگڑا کرنے
والوں کا کیا
انجام ہوتا
ہے۔ ” وَتَوْ
تَریٰ اِذْوْ
قِفُوْا
عَلیٰ النَارِ
فَقٰاتُوْ ا
یٰا
لَیْتَنٰا
نَرَ
دُّوَلٰا نُکَذِّبَ
بِاٰیٰاتِ
رَبَّنَا
وَتَکُوْنَ مِنْ
الْمُوٴمِنِیْنْ
بلْ بَدَ
الَھُمْ
مَاکَانُوْ
ایَخْفُوْنَ
مِنْ قَبل ․․․․․․․ وَمَا
نَحْنُ
بِمَبْعُوْ
ثین“ ترجمہ:
(قرآن کے
جھٹلانے
والوں اور
پیغمبرِ اسلام
سے جھگڑا کرنے
والوں کے بارے
میں ارشاد
ہوتا ہے ” اے
رسول ان لوگوں
کو اس وقت
دیکھتے جب وہ
جھنم کے پاس
لا کھڑے کئے جائیں
گے تو اس وقت
کہیں گے کہ
کاش ہم دنیا
میں دوبارہ
لوٹا دیے جائے
اور اپنے
پروردگار کی
آیتوں کو نہ
جھٹلاتے اور
ہم مومنین میں
سے ہو جاتے
ہاں جو بے
ایمانی پہلے
سے چھپائے
تھے۔وہ ان پر
کھل گئی
حالانکہ یہ
لوگ اگر دنیا
میں پلٹا بھی
دیے جائیں تو
بھی منع کر دہ باتوں
کو دوبارہ
بجالائیں گے
یہ سب جھوٹے
ہیں انکا تو
یہ قول ہیں کہ
ہماری اس
دنیاوی زندگی کے
علاوہ کچھ بھی
نہیں۔(قیامت
وغیرہ سب
ڈھکوسلا ہے)
ہم تو مرنے کے
بعد اٹھائے ہی
نہیں جائیں
گے۔ حقیقت
یہ ہے کہ قرآن
آج بھی ہدایت
کر رہا ہے۔ کس
خوبصورتی سے
تمام مٹی کی
بنائی ہوئی
کمزور دیواروں
کو
گرادیا۔اگر
جھنم پیغمبر
کی نا فرمانی
کی وجہ سے اس
دنیا میں پستی
اور رسوائی کا
نام ہے تو پھر
آیت میں اللہ
سبحانہ
وتعالیٰ کیوں
کہتا وَتَوْ
تَریٰ اگر تم
دیکھتے رسول
اللہ اور ہر
نبی اپنے
دشمنوں کو
دیکھتا ہی ہے
کفارہ کا یہ
کہنا یٰا
لَیْتَنٰا
نَرَدُّاے
کاش ہم پلٹا
دیے جاتے
۔کہاں ؟پیغمبر
تو ان کے
سامنے تھے ۔ان
پر ایمان
آسانی سے لا
سکتے تھے۔ پھر
اللہ کا کہنا
”وَتَوْرُدُّوْالَعَادُّوْااگر
پلٹا دیے جائے
تو پھر وہی سب
کریں گے۔اور
آیت کا خری
حصہ کھلے الفاظ
میں بہائیوں
کو پیش کررہا
ہے اِنَّھُمْ لٰکٰذِبُوْنَ
وَقَالُوْ ا
اِنْ ھِیَ
اِلَّا
حَیٰاتُنَا
الدُّنْیٰا
وَمَا نَحْنُ
بِمَبْعُوْ
ثِیْنْ۔“یہ سب
جھوٹے ہیں
انکا کا تو قول
تھا ہماری اس
دنیاوی زندگی
کے علاوہ کچھ
بھی نہیں ہم
تو مرنے کے
بعد اٹھائے ہی
نہیں جائیں گے
۔ ایسا معلوم
ہوتا ہے آج کے
مسلمان اگر ان
آیتوں کو پڑھے
تو تمام
دشمنان اسلام
اور مخصوصاً
بہائی و بابی
رہنماوٴں
کی کامنٹری
قرآن میں بیان
کردی۔ نتیجہ: دنیا
بھر میں فساد
کے ذمہ دار
یہودیوں کے
ایجنٹ بہائی
حضرات کا ان
چیزوں کا
پروپگنڈا
کرنے کا دو
مقصد ہیں۔ (۱) مسلمانوں
کے عقائد کو
مجروح کیا
جائے (۲) فاسد
لوگوں کو جنم
دیا جائے یہ
بتا کر کہ
اسکے بعد کی
دنیا میں کوئی
سزا و جزاء کا conceptہی
نہیں پیسہ لو
فساد برپا کرو
۔ مزہ کرو۔
·
سوال
: جدید
کے مسلمان کا
قیامت کے بارے
میں عقیدہ ·
سوال:
حضرت امیر
الموٴمنین
کی حدیث ·
سوال: ظہور
قائم آل محمد
ہی قیامت ہے؟ ·
سوال:
عظیم نبی کا آنا
قیامت کبریٰ
ہیں؟ ·
سوال:
قیامت کے بارے
میں سورہ حج کی آیت ·
سوال:
ظہور قائم آل
محمد کو قیامت
ہیں؟ ·
سوال:
قیامت کی
حقیقت کا
متشابہ الفاظ
میں بیان ہونا ·
سوال:
قیامت کے بارے
میں سورہ :
رحمٰن کی آیت
blog comments powered by Disqus |
HOME | BACK ©TheBahaiTimes.com |